Hen in Homes دیسی مرغی گھر میں

Hen at home

Hen at home

پچھلے دو تین دنوں سے میں مرغی اور انڈوں کے اوپر بڑے مزاحیہ کلپس دیکھ رہا ہوں اور مختلف قسم کے مزاحیہ مضامین بھی پڑھ رہا ہوں۔ میں سکردو شہر میں گورنمنٹ آفیسر ہوں۔ پچھلے اٹھارہ سالوں سے رورل ڈیولپمنٹ پہ کام کررہا ہوں۔ میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں لیکن رورل ڈیولپمنٹ کا کام ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کا تجربہ آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرتا ہوں یہ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے مجھے شوق ہوا کی مرغیاں گھر میں پا لی جائیں۔ میں نے بازار سے دو درجن مرغیاں گھر میں لا کے رکھ دیں۔ میری بیوی خود بھی ورکنگ وومن ہے پہلے پہل تو شدید احتجاج کیا۔ بدبو سے خبردار کیا، وقت کی کمی کا رونا رویا، میں نے سب سنی ان سنی کردی، اور جیسے تیسے وہ بڑے ہوگئےانہوں نے انڈے دینے شروع کردیے دو درجن میں سے پانچ چھے مر بھی گئیں اور وہ دن اور آج کا دن میں نے بازار کا انڈہ گھر میں نہیں دیکھا۔ میری فیملی کی انڈوں کی ضرورت گھر کی مرغیاں پوری کرتی ھیں۔ گھر میں روزانہ اوسطا چھے انڈے استعمال ہوتے ہیں۔ پہل پہل میری بیوی کو مرغیوں سے بڑی چڑ تھی لیکن اب بیس سال کے بعد میں دیکھتا ہوں یہ مرغیاں اسکے لئے بچوں سے کم پیاری نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہیں کہ کچھ مرغیوں کی عمر اب سات سال ہوچکی ہیں مگر میری بیوی سوپ بنانے کے اجازت ہی نہیں دیتیں۔میں نے دیسی مرغیوں کے سوپ کے فضائل پہ کئی مرتبہ مدلل بحث بھی کی ہیں مگر مرغیوں کی محبت کے سامنے میرے دلائل کی کچھ نہیں چلتی۔
اب میں آپ کو تھوڑی کیلکولیشن بتاتا ہوں۔
چھے انڈے روزانہ کے حساب سے سال میں 2190 انڈے اور دس روپئے کے حساب سے سالنہ 21900 روپئے مفت میری گھریلو اکانومی میں ڈیڑھ درجن مرغیوں کا حصہ رہا۔ اب یہ پچھلے بیس سال کا کل حصہ دس روپئے فی انڈے کے حساب سے /438000 بنتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک گراس روٹ لیول کی معاشی سرگرمی کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا ہے۔ آپ بنگلہ دیش کی اکانومی کا مطالعہ کریں تو رورل اکانومی کی ترقی میں مرغی فارمینگ سے حیرت انگیز بنیادی معاشی سرگرمی کا پتہ چلےگا۔ ہم غلام قوم اربوں کھربوں کے قرض کے بارے میں سننے کے عادی، ایک انتہائی اہم معاشی سرگرمی پر وزیر اعظم کی توجہ ہمارے لئے باعث تفنن۔ ہمیں اپنی ذہنی آوارگی کا علاج کرنا چاہئے۔ یہ ذاتی تجربہ جو اب میرے گھر کا لازمی روز مرہ کا کام بن چکا ہے آپ لوگوں تک پہنچانے کا مقصد مرغی انڈے کی معیشت کی اہمیت بتانا تھا۔

ج م ساقب بلتستان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *